بعض جگہ دیکھا کہ عورت اپنے شوہر کےلیے بالکل تیار نہیں ہوتی اور نہ ہی مرد اپنی بیوی کےلیے۔ عورت نے جس لباس میں دن بھر کچن میں کام کیا ہوتا ہے یا بچوں کو سنبھالا ہوتا ہے، اسی میں شوہر کے ساتھ جا لیٹتی ہے، اسی طرح سالہا سال منہ میں نہ مسواک کرتی ہیں اور نہ برش۔ اسی عورت کو اگر شادی بلکہ فوتگی میں بھی جانا پڑے تو نہا دھو کر خوب میک اپ اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر جائے گی۔ یہی حال مرد کا ہے۔ پورا دن جن کپڑوں میں محنت مزدوری کرے گا، پسینہ بہائے گا، کھیتی باڑی میں مصروف رہا ہوگا، انہی میں بیوی کے پاس پہنچ جائے گا۔ بعضے تو غیر ضروری بال کاٹنے کا بھی خیال نہیں کرتے حتی کہ مہینے گزر جاتے ہیں۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ کیا ان لوگوں کے سامنے یہ تعلیمات نہیں ہوتیں؟؟؟
رسول اللہ صلی الله عليه وسلم سے پوچھا گیا کہ سب سے بہتر عورت کون سی ہے؟ تو آپ نے فرمایا : جسے اُس کا شوہر دیکھے تو خوش ہوجائے۔ ۔۔۔الخ
تو کیا شوہر اس بیوی سے خوش ہوگا جس کے بال بکھرے ہوں، جسم سے پسینہ کی بدبو آرہی ہو اور کپڑوں پر بچوں کا پیشاپ یا گندگی لگی ہو؟ یقینا نہیں ۔
ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جس عورت کا خاوند مر جاتا تھا تو اسے میک اپ سے روک دیا جاتا۔
معلوم ہوا کہ عام حالات میں صحابیات اپنے شوہروں کےلیے بن سنور کر رہتی تھیں۔
خود رسول اللہ صلی الله عليه وسلم جب بھی گھر تشریف لاتے تو مسواک فرماتے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس طرح مجھے یہ پسند ہے کہ میری بیوی میرے لیے بن سنور کر رہے، اسی طرح مجھے یہ بھی پسند ہے کہ میں اپنی بیوی کےلیے بن سنور کر رہوں۔
بعض جوڑے سمجھتے ہیں کہ شاید میک اپ اور ایک دوسرے کےلیے بن سنورنے کا تعلق شادی کے بعد ایک دو سالوں تک کے ساتھ ہے، اس کے بعد بچے پیدا ہوگئے تو اب رومانس کی کیا ضرورت ہے۔ اب تو بس قانونی تعلق رہ گیا ہے، اسے نبھانا ہے۔ جنونی تعلق کا وقت گزر گیا۔«