میری بہترین دوست مسلمہ رنگ دودھ جیسا اور آنکھیں روشن اس کے نام کی نسبت سے چاندنی پکارتے تھے ۔مگر اسکو احساس نہ تھا کہ وہ چاند کی طرح خوبصورت ہے چاندی کے گھر کا ماحول ہمارے گھرانے سے بہت مختلف تھا اور وہاں گ۔ھٹن محسوس کرتی تھی۔ جب کہ میرے والد صاحب روشن خیال تھے۔ ہمیں اپنی زندگی میں کوئی مشکل درپیش ہوتی تو وہ بہترین انداز سے رہنمائی کرتے تھے۔میرے والدین دونوں ہی تعلیم کی اہمیت کو خوب سمجھتے تھے اور اپنی اولاد کو میانہ روی کے ساتھ جدید طرز تعلیم سے آراستہ دیکھنا چاہتے تھے میٹرک پاس کیا تو کالج میں داخلہ لے لیا مگر چاندنی ہر قسم کی آزادی سے محروم تھی اس کے گھر والے لڑکیوں پر ہی نہیں انہوں نے تو لڑکوں پر بھی پابندیاں لگا رکھی تھیں۔
چاندنی کے والداسکو کہیں آنے جانے نہیں دیتے تھے ۔دوست بنانے پر پابندی تھی۔ یہاں تک کہ ٹی وی دیکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی ۔جب تک ہمارے ساتھ پڑھا پھر اس پر گھر سے نکلنے پر پابندی لگ گئی۔ ایک روز امی اس کی والدہ سے ملنے گئی تو چاندنی نے کہا کہ خالہ جان آپ میری امی کو سمجھائیں کہ مجھے پڑھنے دے۔ اگر باہر جانے میں قباحت ہے ۔تو گھر کے قریب ہی جانے کی اجازت دے دیں۔ جہاں سلائی اور کٹنگ وغیرہ سکھائی جاتی ہے یہ ادارہ ان کے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر تھا۔
امی نے آنٹی کو قائل کر لیا کہ گھر میں بیکار بیٹھا کر رکھنے سے بہتر ہے کہ کچھ سیکھ جائے۔ امی کے سمجھانے کا خاطر خواہ اثر ہوا اور وہ سینٹر جانے لگی ادھر وہ نظر بند ہو رہی تھی تو ادھر میں اپنے پیپرز کی تیاریوں میں لگی تھی۔ جب اس کے گھر جاتی وہ ٹھنڈی آہ بھر کر کہتی کہ آج ہمیں بھی اجازت مل جاتی تو تمہارے کالج جاتی میں اسے تسلی دیتی کہ تم بھی تعلیم پا رہی ہوں کیونکہ ہنر مند ہونا بڑی بات ہے ایک دن میں چاندنی کے گھر گئی وہ کچھ پریشان تھی کہنے لگی تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی اپنے دل کی بات میں اور کس سے کروں شکر ہے تمہارے والد اجازت دے دیتے ہیں اور تم آ جاتی ہوں چاندنی کہانی کیا ہے ۔میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا تو اس نے بتایا کہ جب وہ سلائی سینٹر جاتی تو ایک لڑکا جس کی عمر 22 سال ہوگی اس کی راہ میں کھڑا رہتا ہے۔
اس کے پاس سے گزر جانے کا منتظر ہوتا ہے میں نے اسے کہا کہ جب تم اسکے پاس سے گزرتی ہوتم اس کی جانب متوجہ مت ہوا کرو اور خاموشی سے گزر جایا کرو بالآخر خود ہی انتظار کرنا چھوڑ دے گا کوئی بات کرے بھی تو جواب دینے کی ضرورت نہیں جب تک لڑکی متوجہ نہ ہو کسی کی مجال نہیں کہ کوئی بات کرے ۔ وہ بے چاری کنویں کے می۔نڈک کی طرح تھی ڈرت۔ی تھی کہ اُس کے والدین سلائی سینٹر جانے سے روک نہ دیں ایک روز گلی سے گزر رہی تھی کہ وہ آوارہ لڑکے اس پر آوازیں کسنے لگا وہ گھبرا گئی کہ ان سے جان کیسے چھڑائے۔ اتنے میں وہی لڑکا اسکے سامنے آگیا اور ان لڑکوں کو وہاں سے بھگا دیا۔
چاندنی تیز قدم اٹھاتےہو ئے ۔وھاں سے نکل گئی ۔ اگلے دن سلائی سنٹر چھٹیاں ہو گئیں ۔ چھٹیوں کے بعد سینٹر کھلا تو اس لڑکے کو اسی طرح منتظر پایا اس بار میری سہیلی کا دل اس کے لیے کچھ نرم ہو گیا اور جب اس نے آگے بڑھ کر اسے بتایا کہ وہ سارے لڑکے ج۔ی۔ل پہنچ گئے ہیں اب کبھی تمہارے راستے میں نہیں آئیں گے تو شکریہ کہہ کر آگے بڑھ گئ باقی اس کے بعد پھر کبھی وہ دونوں بدمع۔اش لڑکے نظر نہیں آئے لیکن وہ بدستور اس کی راہ میں کھڑا نظر آتا بالآخر وہ سرخرو ہو گیا ہفتہ بھر نظر نہ آیا تو میری سہیلی کو تش۔ویش ہوئی کہ اسے کیا ہوا ہے جو چھ ماہ سےسردی گرمی دھوپ برسات میں ہمیشہ ایک جگہ ب۔ت کی مانند منتظر دید رہتا تھا اب کہاں چلا گیا کسی حا۔دثے کا شک۔ار نہ ہو گیا ہو۔
میں نے تسلی دی کہ کسی کو کچھ نہیں ہوتا اچھا ہے۔ جو اسے پریشانی تھی وہ اب نہیں رہا۔ جہاں بھی گیا ہے ہماری بل۔ا سے ہمیں اس کے ساتھ کوئی مطلب ہی نہیں تو پھر تش۔ویش کیسی دلوں کے معاملات اللہ ہی جانے یہ کسی کے قابو میں نہیں اپنی من مانی کرتا ہے۔ یہ کبھی مومن ہے تو کبھی ک۔افر ہے۔ بد قسمتی سے میرے امتحان شروع ہو گئے تھے میں باوجود چاندنی کی منت و سماجت کے ہر دوسرے چوتھے دن اس کے گھر نہیں جا سکتی تھی۔ اس کی امی کہنے لگی چاندنی کچھ اداس رہنے لگی ہے۔
تم کو یاد کر رہی تھی دوسری کوئی سہیلی نہیں ہے نا اور وہ کسی کے گھر بھی نہیں جا سکتی اس کے والد کی اجازت نہیں ہے تم کبھی کبھار آ جایا کرو تم سے مل کر میری بیٹی خوش ہو جاتی ہے ۔ اچھا آنٹی کل ہی آ جاؤ گی ان شاء اللہ اگلے دن جب میں شام کو ان کے گھر گئی تووہ میری منتظر تھی کہنے لگی اوف تم نے اتنا انتظار کروایا مجھے اب تو میرے دل میں شک ہونے لگا تھا۔ میں نے کہا چاندنی خدا نہ کرے ایسی کیا بات ہو گی۔ بولی ذرا ٹھہرو اس نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور الماری سے ایک ورق نکال کر میرے ہاتھ میں تھما دیا.
اس نے خود کو شب دراز لکھا تھا اور حیرت کی بات یہ تھی کہ اس نے کسی طرح چاندنی کا نام بھی معلوم کر لیا تھا جب تمہیں اس سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تو خود ک۔شی کرے یا اپنے آپ پر تم کیوں بخار میں مبتلا ہوگئی تھی۔ ہاں بخار ہے تبھی تو اتنے دن بخار میں پڑی تھی۔ اور تمہارے انتظار میں سلگ رہی تھی ۔اس نے کہا تو میں ہنس پڑی تو کسی دن تمہارے ساتھ چل لوں گی چاندنی کوہمت ہوئی اور اس نے تشک۔ر بھ۔ری نظروں سے مجھے دیکھا جیسے کسی مصیبت سے نجات مل گئی ہو اب ہم باتیں کر رہے تھے کہ پڑوس کی لڑکی نے چاندنی سے کہا کہ آپ کا فون آیا ہے میرے لیے فون حیرت زدہ رہ گ اس نے میری طرف دیکھا والد آنے والے تھے میں ان کے گھر اس وقت تو بالکل بھی نہیں جا سکتی تھی۔ فون دوبارہ آیا اور امی نے ابو کو دے دیا تو میں پھ۔نس جاؤں گی ۔ابو تو میرا حش.ر کر دیں گے۔اس کو مصی۔بت میں دیکھ کر میں بغیر کچھ سوچے سمجھے۔ اس لڑکی کے ساتھ اسکے گھر چلی گئی.
میں سب کو جانتی تھی وہ بھی ہماری دوست اور کلاس فیلو رہی تھی اور میرا گھر قریب ہی تھا لہذا کبھی کبھار وہ اپنی امی کے ساتھ ہمارے یہاں آ جایا کرتی تھی کس کا فون ہے۔ میں نے پوچھا جس کے لئے ہے وہ خود آئے ۔میں نے کہا کہ مجھے بھیجا ہے اتفاق سے میں چاندنی کے پاس بیٹھی تھی۔ اور تم جانتی ہو اسکے گھر کا ماحول نہیں آ سکتی تھی۔ کیا حسین کسی سہیلی کا فون آیا ہے۔ جی نہیں یہ کوئی صاحب ہے ذرا سوچو اگر آج امی گھر پر ہوتی اور فون اٹھا لیتی تو کیا ہوتا ہے وہ بازار گئی ہیں جن کے والدین اتنی سخت ہیں پھر بھی اسنے ہمارا نمبر دے دیا ہے۔ میں نے پوچھا کیا وہ یوں کسی کو نمبرنہں دے سکتی ہے مجھے کیا پتا یہ فون نہ کریں ۔ابھی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی اس نے اٹھا کر رسیور مجھے دیا میں نے پوچھا میں ہوں ادھر سے آواز سنائی گئی۔
تم کو کس نے دیا یہ نہیں بتا سکتا بس سمجھ لو کہ صدر کے قریبی محلے دار لڑکی سے میری بھی کچھ رشتے داری ہے اسنے نمبر دیا ہے کیا نام ہے اس کا نام نہیں بتاؤں گا۔ بس چاندنی ہی سے بات کرا دیں میں چاندنی بول رہی ہوں آئندہ آپ فون مت کرنا ٹھیک ہے۔ نہیں کروں گا بس ایک بار خط کا جواب دے دو۔ تحریر نہیں کر سکتی فون پر سن لو کہ آئندہ مجھ سے بات کرنے کی خط لکھنے کی کوشش مت کرنا ۔ورنہ سلائی سینٹر جانا بند کروا دیں گے اور پھر گھر میں قید ہو کر بیٹھ جاؤں گی مجھے ایک بار ملو۔یہ کہہ کر میں نے فون بند کردیا اورگھر چلی گئی اور اگلے دن پتا نہیں کیا ہوا چاندنی کے گھر والوں کو پتا چلا گیا اور وہ بھا گ کر میرے گھر آگئی وہ بہت ڈری ہوئی تھی اور اسکے اسکے گھر والے اسے م ارنے کے لئے ڈھونڈ رہے تھے۔