ایک بادشاہ نے یہ سوچا کہ کیوں نہ اپنے محل میں ایک حوض بنوایاجاۓ اور اُسے دُودھ سے بھر دیا جاۓ۔اور ہر مہمانُ کی دُودھ سے تواضع کی جاءے۔۔ لہذا بادشاہ نے اپنی سلطنت میں حُکمُ صادر فرما دیا کہ کلُ سے ھر آدمی جِس کے ہاں دُودھ ہو وہ رات کو ایک بالٹی دُودھ رات کے اندھیرے میں مذکُورہ حوض میں ڈال دے۔۔
رعایا میں سے ایک آدمی نےُسوچا کہ جہاں اتنے زیادہ لوگ اتنا زیادہ دُودھُ ڈالیں گے، وہاں اگر میںُ ایک بالٹی پانی کی ڈال دُوں گا تو کیا فرق پڑے گا ؟ اس نےُویسا ہی کیا، دُودھ کی بجاۓ پانی کی ایک بالٹی ڈال آیا۔۔ اگلے دِن جب بادشاہ اپنے وُزراء و مصاحبین کے ہمراہ دُودھ کا بھرا ہُوا حوض دیکھنے پُنہچا تو سارا حٓوض پانی سے بھرا ہوا تھا۔۔ یہ ماجرا دیکھ کے بادشاہ نے تفتیش کرواءی کہ ایسا کیوں ہُوا،؟ تو پتہ چلا کہ رعایا میں سے ہر ایک نے یہی سوچ لیا تھا کہ میری ایک بالٹی پانی سے کیا فرق پڑے گا؟
انفرادی سوچ اگر مثبت ہو تو ہی اجتماءی سوچ بھی مثبت ہو گی۔۔۔
فیصلہ ہم نے کرنا ہے۔“