حضرت شیخ سعدی نے اپنی مشہور کتاب ’’ گلستان ‘‘ میں ایک قصّہ لکھا ہے کہ
میں ایک مرتبہ سفر کر رہا تھا۔ سفر کے دوران ایک تاجر کے گھر رات گزارنے کیلئے قیام کیا، اس تاجر نے ساری رات میرا دماغ چاٹا، وہ اس طرح کہ اپنی تجارت کے قصّے مجھے سُناتا رہا کہ فلاں ملک میں میری یہ تجارت ہے، فلاں جگہ میری اس چیز کی دُکان ہے، فلاں ملک سے یہ چیز درآمد کرتا ہوں، یہ چیز برآمد کرتا ہوں۔
ساری رات قصّے سُنا کر آخر میں کہنے لگا کہ میری اور سب آرزوئیں تو پوری ہوگئی ہیں اور میری تجارت بھی پروان چڑھ گئی ہے، البتہ اب صرف ایک آخری سفر کرنے کا ارادہ ہے، آپ دُعا کریں کہ میرا وہ سفر کامیاب ہوجائے تو پھر اس کے بعد قناعت کی زندگی اختیار کر لوں گا اور بقیہ زندگی اپنی دُکان پر بیٹھ کر گزاروں گا۔ اور اللہ اللہ کروں گا، آخرت کی تیاری کروں گا۔
شیخ سعدیؒ نے پوچھا کہ وہ کیسا سفر ہے ؟
اس تاجر نے جواب دیا کہ میں یہاں سے فارسی گندھک لے کر چین جاؤں گا، اس لیے کہ میں نے سُنا ہے کہ وہ چین میں بہت زیادہ قیمت پر فروخت ہوجاتی ہے، پھر چین سے چینی. برتن لے کر روم میں فروخت کروں گا، وہاں سے رومی کپڑا لے کر ہندوستان میں فروخت کروں گا اور پھر ہندوستان سے فولاد خرید کر حلب (شام) میں لے جا کر فروخت کروں گا ، حلب سے شیشہ خرید کر یمن میں فروخت کروں گا، پھر وہاں سے یمنی چادر لے کر فارس آجاؤں گا …….. غرض یہ کہ اس نے ساری دنیا کے ایک سفر کا منصوبہ بنا لیا اور شیخ سعدیؒ سے کہا کہ بس ! اس ایک آخری سفر کا ارادہ ہے ، اس کے لیے آپ دُعا کریں، اس کے بعد میں قناعت سے اپنی دُکان پر بقیہ زندگی گزاروں گا،اور اللہ اللہ کروں گا، آخرت کی تیاری کروں گا۔ اس وقت بھی یہی خیال ہے کہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی باقی زندگی دُکان پر ہی گزار لے گا۔
شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ جب میں نے اس سفر کی روداد سُنی تو میں نے اس سے کہا ……!
آن شنیدستی کہ در صحرائے غور
بارسالارے بیفتا دازستور
گفت چشم تنگ دنیا دار را
یاقناعت پرکند یا خاک گور
فرمایا کہ تم نے یہ قصّہ سُنا ہے کہ ’’ غور (چین) ‘‘ کے صحرا میں ایک بہت بڑے سوداگر کا سامان اس کے اونٹ سے گرا ہوا پڑا تھا، ایک طرف اس کا اونٹ بھی مرا پڑا تھا اور دوسری طرف وہ خود بھی مرا پڑا تھا، اس کا وہ سامان زبان حال سے یہ کہہ رہا تھا کہ دنیا دار کی تنگ نگاہ یا تو قناعت پر کرسکتی ہے یا قبر کی مٹی پر کر سکتی ہے ، اس کے پُر کرنے کا کوئی تیسرا ذریعہ نہیں ہے۔
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد شیخ سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ جب دنیا انسان کے اوپر مسلط ہوجاتی ہے تو پھر اس کو کسی اور چیز کا خیال بھی نہیں آتا ، یہ ہے دنیا کی محبت جس سے منع کیا گیا ہے۔
اگر یہ محبت نہ ہو اور پھر حق تعالیٰ اپنی رحمت سے مال دے دے اور اس کے ساتھ دل اٹکا ہوا نہ ہو اور وہ مال حق تعالیٰ کی پیروی میں رکاوٹ نہ بنے اور وہ مال شریعت کے احکام بجا لانے میں صرف ہو اور اس کے ذریعے انسان جنت کمائے تو وہ مال دنیا نہیں ہے، وہ مال بھی آخرت کا سامان ہے، لیکن اگر اس مال کے ذریعے آخرت کے راستے میں رکاوٹ پیدا ہوگئی تو وہ دنیا ہے، جس سے روکا گیا۔
آج کے “سیٹھوں ” کے لئے ایک سبق ۔“