ندیم بہت دنوں کی بات ہے۔کسی شہر میں ایک مال دار آدمی رہتا تھا۔اس کا نام فقیر چند تھا۔وہ شہر کا سب سے مال دار آدمی تھا،مگر کنجوس مکھی چوس بھی تھا۔اس کا حلیہ بھی عجیب تھا۔باہر کو نکلی ہوئی توند،چھوٹا سا قد،جب وہ چلتا تو معلوم ہوتا تھا کہ فٹ بال لڑھک رہی
ہے۔ فقیر چند کی بیوی بہت اچھی عورت تھی۔وہ غریبوں کی مدد کیا کرتی تھی۔منگل کے دن تو سیٹھ فقیر چند کی حویلی کے دروازے پر سارے شہر کے فقیروں اور اپاہجوں کا ہجوم رہتا تھا،کیونکہ اُس دن سیٹھ کی بیوی ہر فقیر کو ایک پاؤ آٹا خیرات دیا کرتی تھی۔ سیٹھ جی کو یہ بات بہت بُری لگتی تھی،مگر وہ بیوی کا مان بھی رکھتے تھے،اس لئے کچھ کہتے نہ تھے۔ ایک بار سیٹھ جی نے بیوی کو سمجھایا بھی تھا:”ان فقیروں،سادھوؤں کو خیرات دینے سے کوئی فائدہ نہیں۔ یہ سب بازار میں بیچ دیتے ہیں اور افیم کھاتے ہیں،دَم لگاتے ہیں اور موج کرتے ہیں۔ یعنی ہمیں بے وقوف بناتے ہیں۔“ اس بات پر بیوی نے سیٹھ جی سے کہا تھا:”خدا نے ہمیں جو اتنی ساری دولت دی ہے،وہ اسی خیر خیرات کا نتیجہ ہے۔“پھر اس نے سیٹھ جی کو ان کی غریبی کا زمانہ یاد دلایا،جب ان کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی۔ سیٹھ جی کو اس بات سے سخت چِڑ تھی کہ کوئی ان کا بیتا ہوا زمانہ یاد دلائے کہ وہ کیا تھا اور اب کیا ہیں،کیونکہ وہ اپنے آپ کو خاندانی سیٹھ کہتے تھے،اس لئے وہ چپ ہو رہے۔ دنیا کے دوسرے مال دار آدمیوں کی طرح سیٹھ فقیر چند کو بھی اپنی دولت بڑھانے کی فکر لگی رہتی تھی۔ ان کے گودام میں
شکر،نمک،تیل، گیہوں،چاول اور دالوں کے انبار لگے رہتے تھے۔وہ شہر کے سب سے بڑے تھوک بیوپاری تھے۔جب قیمتیں بڑھتیں تو سیٹھ جی کا خون بڑھ جاتا اور اگر بھاؤ گھٹتا تو سیٹھ جی پریشان ہو جاتے۔ان کی راتوں کی نیند حرام ہو جاتی۔ بھوک غائب ہو جاتی۔ ایک سال ایسا ہوا کہ ملک میں بارش نہیں ہوئی۔قحط پڑ گیا۔اناج بازار سے غائب ہو گیا اور غلے کی قیمتیں بہت بڑھ گئیں۔سیٹھ جی نے اناج کی فروخت بند کر دی،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اناج کی قیمتیں اور بڑھیں گی۔ منگل کے دن شہر کے فقیروں اور اپاہجوں کو جو آٹا ملا کرتا تھا وہ بھی ملنا بند ہو گیا ۔ایک دن صبح صبح سیٹھ جی ناشتہ کرکے آرام سے بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ایک آدمی ان کے پاس آیا اور ہاتھ جوڑ کر بولا:”سیٹھ فقیر چند جی!آپ کی دولت بڑھے،آپ کی صحت اچھی رہے،میں غریب آدمی ہوں۔ میرے بچے بھوکے مر رہے ہیں۔مجھے چند سیر چنے دے دیجیے۔میں چنے کھلا کر ان کا پیٹ بھردوں گا اور آپ کو ساری زندگی دعائیں دوں گا۔“ سیٹھ کو بہت غصہ آیا اور انہوں نے اسے ڈانٹ کر بھگا دیا۔دوسرے دن وہ آدمی پھر آیا۔اس کے ہاتھ میں پیتل کا ایک لوٹا تھا۔ سیٹھ جی نے اسے دیکھا تو غصے سے بولے:”اب کس لئے آئے ہو؟میں تم کو ایک دانہ بھی نہیں دے سکتا۔اپنی خیر چاہتے ہو تو یہاں سے فوراً نکل
جاؤ، ورنہ․․․․“ اس آدمی نے سیٹھ جی کی بات کاٹ کر کہا:”مگر سیٹھ جی!آپ ہی کے فائدے کی بات ہے۔ آپ مجھے نہیں پہچانتے،کوئی بات نہیں۔کم از کم اس پیتل کے لوٹے کو تو پہچانتے ہی ہوں گے ۔اس پر آپ کا نام بھی کھدا ہوا ہے۔فقیر چند ولد گھسیٹ چند۔شاید آپ کو یاد ہو جب آپ نئے نئے شہر میں آئے تھے تو یہ لوٹا رامو بھڑ بھونجے کے پاس چار آنے میں گروی رکھا تھا اور آپ نے رسید بھی لکھ دی تھی۔ یہ بات ذرا پرانی ہے، کوئی بیس سال پہلے کی ۔آپ اسے چھڑانا بھول گئے۔خیر کوئی بات نہیں،بڑے لوگوں کی یادداشت کمزور ہوتی ہے۔میرا فرض تھا کہ میں آپ کی چیز آپ کو واپس کر دوں۔کیا خیال ہے؟کچھ یاد آیا آپ کو؟“ سیٹھ جی کا غصہ یہ سنتے ہی کافور ہو گیا۔ انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی ان کی بات چیت تو نہیں سن رہا ہے۔پھر کہنے لگے:”ہاں ہاں،مجھے خوب یاد ہے۔تم نے اچھا کیا میرا لوٹا لے آئے۔میں ابھی تمہیں چار آنے دیتا ہوں۔میرا لوٹا مجھے دے دو۔“ رامو ہنسا:”ہاہا․․․․سیٹھ جی!آپ مذاق کر رہے ہیں۔ بیس سال میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔جب آپ کی جیب میں ایک پیسہ بھی نہیں تھا۔آپ کا لباس ایک پھٹی دھوتی تھی۔آپ کے پاس صرف ایک پیتل کا لوٹا تھا۔آپ جب کنگال تھے،اب لکھ پتی ہیں۔جب فقیر چند تھے اور اب سیٹھ فقیر چند ہیں۔ذرا آپ ہی ایمان داری سے کہیے،اس نایاب پیتل کے لوٹے کی قیمت کیا چار آنے ہی رہے گی۔ “ ”اچھا تو میں اس کی قیمت پانچ روپے دوں گا۔لاؤ میرالوٹا مجھے واپس کر دو۔“ رامو نے اس لوٹے کو انگلیوں پر نچاتے ہوئے کہا:”دیکھیے اس پر آپ کا نام بھی لکھا ہے۔آپ نے جو رسید لکھی تھی،اس پر آپ کے دستخط بھی ہیں اور وہ بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ میں سوچتا ہوں اس لوٹے کو بازار میں نیلام کر دیا جائے۔آپ بھی وہیں قیمت لگائیے۔بھلا سیٹھ فقیر چند کا لوٹا!اس کی قیمت تو ایک ہزار بھی کم ہے۔ایک۔دو۔تین․․․سیٹھ فقیر چند کا گروی رکھا ہوا پیتل کا
لوٹا،پھر سارا شہر جان لے گا کہ سیٹھ فقیر چند بیس سال پہلے کیا تھے۔ اچھا سیٹھ فقیر چند جی!اب میں چلتا ہوں۔آپ کا لوٹا میرے پاس حفاظت سے رہے گا۔“یہ کہہ کر رامو دروازے پر سے نکل کر یہ جا وہ جا۔سیٹھ اُسے بلاتے ہی رہ گئے،مگر وہ نہ رکا۔ سیٹھ جی کو سکتہ سا ہو گیا۔بھوک غائب ،نیند کوسوں دور۔ ان کو رہ رہ کر یہ خیال پریشان کر رہا تھا کہ اگر اس رامو بھڑ بھونجے نے ان کا راز فاش کر دیا تو کیا ہو گا۔ان کی ساری عزت خاک میں مل جائے گی۔لوگ کیا کہیں گے۔سیٹھ فقیر چند جس کو لوگ جھک کر سلام کرتے ہیں،جس کا لاکھوں روپیہ بینک میں جمع ہے،جس کی عزت سارے شہر میں ہے،وہ اتنا غریب آدمی تھا کہ پیتل کا لوٹا ایک بھڑ بھونجے کے پاس گروی رکھا․․․سیٹھ کو اپنے اوپر غصہ آرہا تھا،مگر سچ بات تو یہ تھی کہ انھیں کیا پتا تھا کہ بیس سال بعد وہ لکھ پتی بن جائیں گے۔ بیس سال پہلے سیٹھ فقیر چند واقعی غریب آدمی تھے۔وہ اپنے گاؤں سے نوکری کی تلاش میں شہر آئے۔جیب میں پھوٹی کوڑی نہ تھی۔کسی طرح پیدل سفر کرتے کرتے شہر تک آگئے تھے۔نئی جگہ،جان نہ پہچان۔بھوک نے الگ پریشان کیا۔ناچار ہو کر ایک ترکیب سمجھ میں آئی۔ انہوں نے اپنا پیتل کا لوٹا گروی رکھا اور چار آنے کی رسید لکھ دی۔دو پیسے کے چنے لئے اور پیٹ بھرا۔ پھر فقیر چند کو ایک سیٹھ کا ہاں منشی گیری کی نوکری مل گئی۔یہ سچ ہے کہ فقیر چند نے اتنی محنت اور ایمان داری سے کام کیا کہ سیٹھ کا اعتبار ان کو حاصل ہو گیا۔
تجوریوں کی چابیاں ان کے قبضے میں رہنے لگیں۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ سیٹھ اچانک بیمار پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہو گئے۔فقیر چند کی نیت میں فتور آگیا۔تجوری کھول کر انہوں نے ایک تھیلی نکال کر چھپا دی۔کسی کو خبر بھی نہ ہوئی۔ سیٹھ کی موت کے بعد دولت تقسیم کے معاملے پر ان کے لڑکوں میں جھگڑا چلا۔فقیر چند کام سے الگ ہو گئے۔شہر کے ایک کونے میں چھوٹی سی دکان کھول کر بیٹھ گئے۔ رفتہ رفتہ دکان بڑھی اور فقیر چند،سیٹھ فقیر چند بن گئے۔ سوچ سوچ کر سیٹھ جی ہار گئے۔ آخر ان سے نہ رہا گیا۔دوسرے دن سویرے ہی وہ رامو بھڑ بھونجے کی دکان پر پہنچے۔دیکھا تو ان کا لوٹا رسی سے بندھا ہوا چھپر سے لٹک رہا تھا۔سیٹھ جی کو دیکھ کر رامو مسکرایا اور بولا:”سیٹھ جی!آپ نے ناحق تکلیف کی۔میں خود حاضر ہو جاتا۔ بتایئے میرے لئے کیا خدمت ہے؟“ سیٹھ کار سے اُترے اور رامو کے ساتھ اس کے ٹوٹے پھوٹے گھر میں گئے۔رامو نے ان کو چار پائی پر بٹھایا۔خود زمین پر بیٹھا۔سیٹھ کو رامو کا گھر اور اس کا حلیہ دیکھ کر اپنی بیس سال پہلے کی زندگی یاد آگئی۔ جب ان کی حالت بھی تقریباً ایسی ہی تھی۔ ”رامو!میں تم کو ایک ہزار روپیا دوں گا۔میرا لوٹا مجھے دے دو۔“ ”سیٹھ جی!آپ کا لوٹا آپ کے قدموں پر حاضر کردوں گا۔مجھے ایک پیسہ بھی نہیں چاہیے۔آپ کی دولت آپ کو مبارک۔میں اتنا ہی کہوں گا کہ آپ بھی کبھی اتنے ہی غریب تھے،یعنی ہماری ہی برادری کے ایک معمولی سے آدمی․․․آج آپ بڑے آدمی ہیں۔ اپنے آپ کو اور اپنے بھائیوں کے دکھ درد کو بھول گئے ہیں۔آپ کے گوداموں میں غلہ پڑا ہے۔ان گنت انسان بھوکوں مر رہے ہیں۔اگر آپ چاہیں تو بھوکے مرتے انسان بچ سکتے ہیں۔آپ کو اپنی عزت کی فکر ہے،بھوکے مرتے انسانوں
کی نہیں۔“ ”تو تم کیا چاہتے ہو؟“ ”میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ مرتے ہوئے انسانوں کو بچائیے۔ اس میں سچی خوشی ہے۔یہ آپ کا فرض بھی ہے۔میں آپ کا لوٹا نیلام کر سکتا ہوں،مگر میں اتنا ذلیل آدمی نہیں۔غریب ضرور ہوں۔آپ کو لوٹے کی کتنی فکر ہے،یہ آپ کے چہرے سے ظاہر ہے۔کاش آپ کو اتنی ہی فکر غریبوں کی بھی ہوتی۔ ”بس کرو رامو!بس کرو۔ تم سچ کہتے ہو۔تم نے میری آنکھیں کھول دیں۔میں ایک ایک دانہ مفت بانٹ دوں گا۔“یہ کہہ کر سیٹھ جی اُٹھ کھڑے ہوئے۔ایک ہفتے تک سیٹھ فقیر چند کے گوداموں سے غریبوں کو مفت غلہ بٹتا رہا۔یہی نہیں سیٹھ فقیر چند نے کئی ہزار کی رقم اور کپڑا مفت غریبوں میں تقسیم کرنے کے لئے بھی دیا۔ پھر شہر کے دوسرے آدمیوں نے بھی سیٹھ کی دیکھا دیکھی ایسا ہی کیا۔سیٹھ کی بیوی اور دوسرے لوگ سیٹھ کی دریا دلی پر حیران تھے،مگر یہ بات صرف رامو جانتا تھا کہ یہ ساری کرامت پیتل کے لوٹے کی تھی۔