سلطان محمود غزنوی کا ایک دانا وزیر تھا جس کا نام ایاز تھا ایاز بادشاہ کو بہت پسند تھا ایک مرتبہ یوں ہوا کہ بادشاہ نے ایاز کو خربوزے کا ایک ٹکڑا کاٹ کر پیش کیا ایاز نے وہ لیکر خوشی خوشی کھالیا بدستور بادشاہ نے ایک اور کاٹ کر دیا حتی کہ بجز ایک ٹکڑے کے سارا خربوزہ بادشاہ نے ایاز کو پیش کیا اور ایاز نے خوشی خوشی کھا لیا
اب جو ایک ٹکڑا بچ گیا تھا وہ بادشاہ خود کھانے لگا جیسے ہی بادشاہ نے وہ ٹکڑا منہ کے قریب کیا تو وہ انتہائی کڑوا تھا لہذا بادشاہ نے تھو تھو کر کے پھینک دیا اور ایاز سے کہا کہ ایاز!
میں نے تجھے جب یہ خربوزہ پیش کیا تو تم نے مجھے اس کی کڑواہٹ کی خبر کیوں نہ دی تاکہ میں تمہیں اور نہ دیتا اور تم ہو کہ کڑوا خربوزہ بھی مزے مزے سے کھا گئے اور کوئی شکایت نہ کی اور کوئی گلہ شکوہ نہ کیا
تو ایاز نے کمال کا جملہ کہا کہ جس ہاتھ سے زندگی بھر میٹھا کھایا ہے آج اس ہاتھ سے کچھ کڑوا مل گیا تو کیا میں شکوہ کرتا پھروں
قارئین یہی حال ہمارا ہونا چاہئے کہ جس رب نے ہمیں گیارہ ماہ طرح طرح کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیا اگر وہی رب ہمیں ایک ماہ روزہ رکھنے کا حکم ارشاد فرمائے تو ہمیں سر تسلیم خم کرتے ہوئے حکم ربانی کو قبول کرنا چاہئے اور تمام کے تمام روزے شوق و محبت سے رکھنے چاہئیں
اللہ عمل کی توفیق نصیب فرمائے آمین ۔